آذربایجان جمہوریہ کے صدر حیدر علییف کی آرمینیا میں آمریکہ کے سفیر جون ارڈوۓ کے ساتھ ملاقات میں گفتگو سے،- محل صدر ، 30 اکتوبر 2002ء


حیدر علییف: محترم جناب سفیر، آذربایجان خوش آمدید ۔ میں آمریکہ کےآذربایجان میں سفیر کا بہی استقبال کر رہا ہوں۔ میں آپ سے بڑی مدت سے نہ ملا تہا ۔ میرے خیال میں آپ کے آذربایجان کے سفر کی مقصاد آرمینیائ- آذربایجانی خہگڑے کے متعلق معلومات حاصل کرنا اور ہمیں اس میں مدد کرنا ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں اس پہل کا خیر مقدم کر رہا ہوں ۔ میں اس پر بڑی خوش ہوں ۔

جون ارڈوۓ: جناب صدر،میں آپ کو آپنی شکریہ کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی وقت سے کٹ کر ہم سے مل رہے ہیں ۔ اس لۓ میں آپ کو شکریہ گذار ہوں ۔ آپ سے ملنا ہمارے لۓ بڑی خوشی کی بات ہے ۔ جیسے کہ آپ نے یہاں بتایا ہے کہ ہماری ایک ایسی مقصاد ہے اور اس پہل کو ہم دونوں نے، خاص طور پر سفیر ویلسون نے پیش کیا تہا کہ آذربایجان اور آرمینیا میں آمریکی سفیر باہمی سفر کریں ۔ چہ ماہ پہلے جناب ویلسون آرمینا آیا تہا اور آخ میں آذربایجان میں ہوں ۔

میری یہاں پر ہوتے ہوۓ وقت میں طالب علموں سے، دینی فرقوں سے، مختلف پاڑٹی کے نمائنوں سے، پارلیمینٹ کے ممبروں سے، رسمی لوگوں سے ملا ہوں ۔ میں نے آذربایجان کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیا ہوں ۔ میں نے کوشش کیا تہا کہ اس معملہ کو گہری طور سے سیکھ لوں اور آذربایجان کے مورچے کو سمجھ پاوؤں۔ اس کے باد میری یہ یقین بڑہی ہے کہ ہمیں اس جہگڑے کو امن پسند طریقہ سے حل کرنے کے لۓ ایک ساتھ ہوکر کوششیں کرنی چاہۓ،

جی ہاں، منسک گروپ اور ہم صدر اس مسئلہ کے حل میں سنجید گی سے مسصروف ہیں ۔ اور ہم، میں اور جناب ویلسون اس سلسلہ کو حمایت کرنے کے لۓ کوشش کر رہے ہیں، اس میں اپنی مورچہ بیان کریں ۔

مینسک گروپ کے ہم صدر اور اس میں شامل ہونے والے ممالک بہی ایسے سوچتے ہیں اس مسئلہ کو امن پسند طریقہ سے حل کرنا چاہۓ۔ آپ خود نے کئ بار بیان کیا تہا ہے کہ اس طریقہ کی ظرف دار ہیں ۔ میں ایسے بیانوں کو صدر کوچاریان سے بہی سنا تہا ۔ ہم ایسے سوچتے ہیں کہ اس مسئلہ کو جنگ سے حل کرنا نا ممکن ہے ۔ اس لۓ تصفیہ کی کھوج کرنا چاہۓ، یہاں پر سیاسی ارادہ ہونا ہے کہ اس مسئلہ حل کیا جاۓ۔ اس مسئلہ کے حل سے آپ کے ملک کی، آرمینیا کی اور عموما" علاقہ کی ترقی ہوتی ۔ اور ہم بہی اپنی طرف سے سب کچھ کر دیںگے تاکہ اس کام میں مدد کریں ۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہیر باکو میں ہونا میرے لۓ بڑی خوشی کی بات ہے۔ میں نے یہان پر 1986 میں آیا تہا ۔ آج میں باکو میں ایک بڑی، مثبت تبدیلی کا گواہ ہوں ۔ اسی وقت جوان آمریکی سیاسی لیڈروں کا ایک گروہ تہا۔ میں اس وفد کے ساتھ یہاں آیا تہا۔

حیدر علییف:اچہی بات ہے ، یعنی مقابلے کرنے کے لۓ آپ کی امکان ہے ۔

جون ارڈوۓ:جی ہاں، مقابلے کرنے کے لۓ امکان ہے ۔ لیکن یہ بے مسال ہے ۔ کیوں کہ اس بار میں نے باکو کو زیادہ تر با فوغ، زیاد تر خوبصورت دیکہا ہوں ۔

حیدر علییف: بہت شکریہ۔ میں نے آپ سے بڑی غور سے سون لیا اور آپ کی اس سفر سے اور یہاں پر کۓ گۓ کام سے راضی ہوں ۔ یہ ہمیں، خاص طور پر آذربایجان کو چاہۓ۔ کیوں کہ سب کے پاس، آرمینیا میں، واشنگٹون میں، مینسک گروپ میں، ہم صدروں میں آذربایجان کی آج کل کی حقیقت کے بارے میں، یعنی آرمینیائ۔ آذربایجانی جہگڑے کے بارے میں سحی اور پوری معلومات ہوں ۔ مجہے شک و شبہ نہیں ہہ کہ آمریکہ کے آذربایجان میں سفارت، سفیر اور سفارت کے ملازم اس کام کو پورے کر رہے ہیں ۔ لیکن جہگڑے کے دوسری طرف میں، دوسرے ملک میں آمریکہ کے سفیر کا آذربایجان میں آنا اور یہاں کچھ معلومات حاصل کرنے کی ایک بڑی اہمیت ہے ۔

آپ ہمارے ملک کی، شخصا'' آذربایجانی صدر کی آرمینیائ۔ آذربایجانی جہگڑے کے حل کے بارے میں مورچہ اچہا جانتے ہیں ۔ یہ مورچہ معلوم ہے، میں کئ بار اس کے بارے میں بتا چکا ہوں، ہم اس مسئلہ کو امن پسند طریقہ سے حل کرنے کے لۓ کوشش کرتے ہیں اور آئندہ بہی یہی کریںگے۔ لیکن مسئلہ کا بڑی مدّت سے حل نہ ہونا اور امن پسند طریقہ سے حل کرنے کے بارے میں وعدے پورے نہ کرنا، ظاہر ہے کہ ہمارے سماج میں مختلف فکریں،مزاج پیدا کرتے ہیں ۔ میں سوچتا ہوں کہ آپ نے اس کو یہاں پر دیکہے ہیں اور سونے ہیں ۔

میں آج بہی کھ رہا ہوں کہ اس مسئلہ کو امن پسند طریقہ سے حل کرنا چاہۓ۔ لیکن اس مسئلہ کو آج تک حل نہ ہونا آرمینیا سے مقابلے میں آذربایجان کی حالات چند بار مشکل کرتا ہے ۔

میں آرمینیا کے اندرونی اقتصادی اور سیاسی حالت کو نہ دیکھکر کہنا چاہتا ہوں کہ آرمینیا کے ایک میتر زمین بہی قبصہ نہ کیا گیا ہے۔ آرمینیا کے اپنی علاقہ سے پناہ گیر لوگ نہیں ہیں ۔ خیموں میں رہنے والے نہیں ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ آرمینیا کی علاقہ اپنے ہاتھ میں ہے ۔ علاقائ تمام تاری ہر ایک ریاست کی بنیاد ہے ۔ آرمینیا میں علاقائ تمام تاری اس کی آزادی پانے سے اب تک پورے موجود ہے ۔ لیکن آذربایجان میں یہ نہیں ہے اور ہمارے علاقائ تمام تاری توڑی کی گئ ہے اور آج تک ہم اس کو بحال نہیں کر پاتے ۔ یہی ہے فرق۔

ظاہر ہے کہ اس مسئلہ کو کہینچوانا آرمینیا کو بہی فائدہ مند نہیں ہے ۔ لکین یہ آرمینیا کے لۓ اتنی مشکلات نہیں دلاتے جتنے کہ آذربایجان کو ۔ اس لۓ گفتگو میں کبہی کبہی صدر کوچاریان کہتا ہے کہ ہے ابہی تک ایسے رہے اور اس کے بعد بہی رھ سکتے ہیں ۔پہاڑی گراباغ آرمینیا کے ساتھ ملایا گیا ہے اور دوسری طرف سے پہاڑی گراباغ اپنے خود کو آزاد ملک بیان کیا ہے ۔ ساچ ہے کہ اس کو آزاد ریاست جیسے کسی بہی ریاست نے تسلیم نہ کیا ہے ۔ لکین مختلف سیاست دان پہاڑی گراباغ کو سفر کرتے ہیں، اس کی آزادی کو تسلیم کرتے ہیں، ایسے حال موجود ہیں ۔

آج مجہے خبر ملی ہے کہ آرمینیائ اخباروں میں ایک مضمون چہاپا کیا گیا تہا کہ آمریکہ کے 46 گانگریسمینوں نے گراباغ کو تسلیم کرنے کے بارے میں بیان دی ہے ۔ انہوں نے ارکادی گوکاسیان کو، پہاڑی گراباغ کو وہاں واقع ہوی انتخابات کے متعلق مبارک باد دی ہے ۔ اس کو ایک جمہوری ملک کہلاۓ ہیں اور دوسرے ملکوں، ریاستوں کو پہاڑی گراباغ کی آزادی کو تسلیم کرنے کے لۓ بلا رہے ہیں ۔

مجہے چند روز پہلے خبر ملی ہے کہ شائد برطنیہ میں، چمبر آف لاڑڈس میں یا کہیں چند لاڑڈ کے پہل سے پہاڑی گراباغ کی آزادی کا معملہ پر بحث کرنے چاہتے ہیں ۔

میں اں خبروں کو آپ کو کہکر نہیں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ یہ سوچ لیں کہ میں آمریکہ کی مذّمت کر رہا ہوں ۔ میں یہی آپ کو اس لۓ نہیں کھ رہا ہوں کہ آپ لوگ مجہے سمجہائں کہ وہ گانگریسمین کیوں ایسی حرکتیں کرتے ہیں ۔ میں یہ سمجہتا ہوں کہ آپ لوگ کھ سکتے ہیں ۔ میں ان باتوں کو اس لۓ کر رہا ہوں کہ پہاڑی گراباغ اور آرمینیا اسی حالات میں رھ سکتے ہیں، لیکن آذربایجان نہیں رھ سکتا ہے ۔ یہی ہے فرق۔ اس لۓ ہم اس مسئلہ کے حل کرنے والی کسی بہی طاقت کو عزّت کرتے ہیں ۔ ہمین اسی حالت سے نکالنا ہے۔ یہ امن پسند طریقہ سے حل ہونا ہے یا تو عوام جنگ کرکے اپنے زمین آزاد کریگی ۔ ہم جنگ کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔ اس لۓ ایک طریقہ ہے یعنی امن پسند طریقہ ۔ لیکن امن پسند طریقہ سے اور کیا-کیا کر سکتے ہیں۔ میری آپ سے بـات چیت اس کے بارے میں ہے ۔

جون ارڈوۓ: جناب صدر، سب سے پہلے مجہے آپ اجازات دیں کہ میں یہی کہوں کہ آمریکہ کی بیرونی
سیاست  کو گانگرس‎ ہنیں، صدر معلوم کرتے ہیں ۔ اور صدر بوش کا ایک ایسا ارادہ نہیں ہے کہ پہاڑی گراباغ   
کو تسلیم کر لیں ۔ یہ آپ کو اور سب کو بہی معلوم ہے کہ پہاڑی گراباغ کو کسی بہی ریاست ایک آزاد ملک جیسے تسلیم نہ کرتا ہے ۔

حیدر علییف: جناب سفیر، میں نے بتییا تہا کہ اس سے میری پریشانی نہیں ہے ۔ مجہے علم ہے کہ جناب بوش اس کو کبہی تسلیم نہیں کریںگے اور کسی بہی ریاست اس کو تسلیم نہیں کریگا ۔ میں اس سے پریشان نہیں ہوں ۔ میں اس کو آپ لوگوں کو ایک معلومات کی طور پر اس لۓ کھ رہا ہوں کہ آپ کو معلوم ہوں کہ پہاڑی گراباغ اور آرمینیا اسی حالات میں رھ سکتے ہیں۔ سیاست کی لحاظ سے مجہے معلوم ہے کہ آمریکہ میں کسکی کیا سیاست ہے ۔ لیکن آڑٹیکل 907 کو ہٹانے کے لۓ صدر کانگریس کے سامنے نا کامیاب رہے ۔ بیرونی مالی مدد کو گانگریس دے رہا ہے اور اس سال اس نے پہاڑی گراباغ کو بہی مالی مدد دی اور صدر نے اس فیصلہ کو تصدیق کیا ہے ۔ اور آخرکر آپ لوگوں کو، آمریکہ کے بیرونی ممالکوں میں سفیروں کو بہی کانگریس تصدیق کرتا ہے ۔ اس لۓ کانگریس بیرونی سیاست سے باحر نہیں ہے ۔ میں نے اس کو آپ لوگوں کو ایک جواب کے طور پر بتایا ہوں ۔ لیکں آئۓ اس بات پر زیادہ غور نہ دیں اور اہم بات پر بحث کر لیں ۔

"باکینسکی رابوچی" اخبار سے ، 31 اکتوبر 2002ء کے مضمون سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔