آذربایجان جمہوریہ کے صدر حیدر علییف کی باکو میں مسلیم ممالکوں کے سفیروں سے ملاقات سے گفتگو،27 دسمبر 2000ء

حیدر علییف: میں اس جشن کے روز آپ کو پریشان کرنا نہیں چاہتا تہا۔ لیکں مجہے خبر ملی ہے کہ اس جشن کو منانے والے مسلیم ممالکوں کے سفیر مجھ سے ملنا اور مجہے مبارکبادی دینا چاہتے ہیں ۔ میں بہت خوش ہو گیا ہوں ۔ کیوں کہ اس جشن سے متعلق ہوکر ہم لوگ پہلی بار مل رہے ہیں ۔ آذربایجان میں عظیم اسلامی مذہب کے ماننے والے عواموں، ممالکوں کے سفیر موجود ہیں ۔ آذربایجان نے بہی بڑی سالوں کی دینی محرومیاتوں سے بچا لیا ہے ۔ ہماری عوام ابہی آزاد ہے اور اپنی دینی جشن بہی مناتے ہیں ۔ مجہے شک نہیں ہے کہ آپ لوگ، یعنی سفیر رماضان میں روزا رکہتے تہے، بہوکھ رہے ہیں، دینی عادتوں کو پالتے تہے اور آج جشن کر رہے ہیں ۔

میں نے آپ کے ممالکوں کے، ریاساتوں کے رہنوماؤں کو رماضان جشن کے متعلق اپنی مبارکبادی بہیجی ہے لیکن اس فرست لیکر آپ لوگوں کو ایک بار بہیر رماضان جشن کے متعلق اپنی مبارکبادی دے رہا ہوں ۔ آپ کے عواموں، ممالکوں کو اس جشن کے متعلق دل سے اپنی مبارکبادی دے رہا ہوں۔

جہاں تک مجہے معلوم ہو گیا کہ آج رماضان میں روزا رکہنے والے لوگ، دینی رسم و رواجوں کو پالنے والے لوگ شائد آذربایجان میں دوسرے ممالکوں میں ہونے والے سے زیاہ ہے ۔ یہی ایک مسبت حالات ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ آذربایجان میں ہم اپنے تاریخی، اخلاقی،دینی رسم بحال کرتے ہیں ۔

یہاں ایسے سفیر ہیں کے جنکے ممالکوں میں کامیونست نظریات نہیں تہی ۔ لیکن ایسے سفیر ہیں وہ ہمارے جیسے، ہمارے ساتھ سوویت یونین میں تہے ۔ اں سالوں میں یہاں دین کے خلاف پروپگیینڈا کیا جاتا تہا۔ اس وقت ایک ایسی کہاوت تہی کہ دین عوام کے لۓ نشہ ہے ۔ یہ مارکس کے کہنے تہے ۔اس لۓ 70 سالورں کے دوراں ہمیں پروپگیینڈا کرتے تہے کہ اگر آپ دین سے مصروف ہونگے تو اسکی معنی یہ ہوگا کہ آپ نشہ پیتے ہیں ۔ یہ لوگوں کو ڈرانے کے لۓ کیا جاتا تہا۔ جیسے کہ لوگ نشہ سے بحیوش ہوتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں، تو دین سے بہی ایسے بیمار پڑ سکتے ہیں ۔ لیکن دین انسانوں کے دل میں رہتا ہے ۔ ساچ بات ہے کہ آذربایجان میں جوان نسلوں کی اکثریات دین سے دور رہے لیکن دین کو ماننا نسلوں سے نسل کو پاس کیا گیا ہے ۔

ابہی ہم آزاد ہونے کے بعد ہمارے رسم و رواج سارے بحال کۓ جاتے ہیں۔ ہمارے رماضان جشن ( عید الفطر) بہی بحال کیا گیا ہے ۔ ہم بہی آذربایجان میں رماضان ماہ مانتے ہیں اور جشن ( عید الفطر) بہی کرتے ہیں ۔ ساچ بات ہے کہ ہم ایک روز جشن مناتے ہیں لیکن کئ ممالکوں میں 4-3 روز جشن مناتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آج آپ سے مل رہا ہوں اور ہم اس روز جشن کو مناتے ہیں ۔

میں رماضان ماہ کے مسلیم لوگوں کے لۓ جتنا اہم ہونے کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتا ہوں ۔ اس کے بارے میں آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔ ایک بار اور کہنا چاہتا ہوں کہ آذربایجان میں یہ جشن ابہی پکّہ ہو گیا ہے ۔ آپ کو رماضان جشن کے متعلق دو بارہ مبارکباد کر رہا ہوں ۔ میری آپ لوگوں کو کہنے والی باتیں یہی تہیں ۔

قدری ایجویت تیزجان( ترکی کا آذربایجان میں سفیر): جناب صدر، ہماری مذھب کے سب سے قیمتی جشن عید الفطر کے متعلق مسلیم ممالکوں کے – لیویا، ازبیکستان، پاکسپان، مصر،سعودی عرب،ایران،عراق،ترکمینستان،کزاکستان اور ترکی کے سفیروں کے نام سے آپ کو مبارکباد کر رہا ہوں اور ہمین قبول کرنے کے لۓ آپ کو بہت شکرگذار ہوں ۔

جناب صدر، یہ جشن ایک دسری خاص واقعہ سے ایک ہی روز میں آیا ہے ۔ 31 دسبر کو آذربایجانیوں کے یکانگی کا روز ہے ۔ دسری بات ہہ ہے کہ نیا سال بہی آ رہا ہے ۔ اپ کی اجازات سے میں ان سارے جشنوں کے متعلق آپ کو اور ہمارے لۓ قیمتی آذربایجانی قوم کو مباراک بادی دینا چاہتا ہوں ۔

آپ نے ایک گہری اور بڑی معنی کی ایک بات کی ہے ۔ در اسل میں ہماری دین میں رماضان ماہ کی، اس عید کی خاص اہمیات ہے ۔ اگر جسکی امکانات، سحی سحت ہے تو وہ رماضان ماہ میں روزا کر سکتے ہے تو اسکا انسان کے لۓ دو معنی میں فائدہ ہے۔ اسکی پہلی اہمیات یہ ہے کہ انسان اس وقت ایک مشکل سے، اپنی چاہت سے جد و جہد کرتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ امیر آدمی دنیا میں غریبوں کی حالات سے وکوف ہو جاتا ہے ۔

لیکن ہماری دین سرف رسوم نہیں ہے ۔ ہماری دین دل میں ہے۔ میرے خیارل میں سرف ہماری دین میں اللہ اور انسان کے درمیان کسی بہی سفیر کی ضرورات نہیں ہے ۔ ہماری دین انسانوں کو اتنی محبت، عزّت لگانے والے مذھب ہے کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی بنا عتیقاد گذارے تو ہم اپنی آخری سانس ميں بہی کلمہ شہادات کہکر دوسرے مسلمانوں کے مالک ہوتے ہوۓ صوابوں سے استعمال کرنے کی امکانات حاصل کرتے ہوںگے۔

جناب صدر واہد اللہ دنیا میں سارے لوگوں کی وہدت، ان کے رہائش کے لۓ سارے نعمات چاہتا ہے ۔

اسلام کی ایک دوسری خوب طرف ہہ ہے کہ وہ ہمیشہ انسان کی محبّت خوشحالی، مذھبوں کی برداشت کے بارے میں بات کرتا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے اور آپ نے اپنی تقریروں میں چند بار کہا ہے کہ آذربایجان ایک جوان ریاست ہے ۔ لیکن آذریایجانی عوام میں، آذرجایجانیوں میں ایک قدیم خصوصیت ہے ۔ یہ یہاں کے لوگوں کی سارے مذھبوں سے برداشتی، دوسرے لوگوں کے لۓ خوشی کی تمننایں ہیں ۔

آج ہم سب جانتے ہیں کہ آذربایجاں میں سرف مسلیم نہیں رہتے ہیں ۔ یہاں پر یہودی، اسائ بہی رہتے ہیں ۔ لیکن وہ سب ایک ہی حالات میں، ایک دوسرے کی عزّت کرتے ہوۓ، آپ کی رہنمائ‏ کے ملک میں امن اور سکوں میں رہتے ہیں ۔

جناب صدر، آذربایجانی جمہوریہ، ترکی جمہوریہ اور دوسرے مسلیم ممالک بہی سیکیولار، غیر مذھبی ریاست ہیں ۔ مطلب ہہ کہ ہمارے یہاں دین اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔ لیکن لوگ بغیر مذھب کے نہیں رہ سکتے ہیں ۔ دیں لوگوں کو ملانے والے، چہوتے کو بزرگ کو عزّت کرنے کو سیکہانے والے ایک سب سے اہم عنصر ہے ۔

جناب صدر، آپ نے بتایا ہے کہ سوویت کے دوران مذھب ایک نشہ سمجہا جاتا تہا اور یہی پریپیگینڈا کیا جاتا تہا۔ اگر ہم دین کے لوگوں کے لۓ بہیجنے کی سبب داخلا" ، در اسل میں نہ جانے تو اس سے باہر جانا،ریڈیکیلزم تک پہونچنا ممکین ہے اور یہ لوگوں کو گمراہ کر دیتا، تہذیب، ترقی، خوشی، ان سارے نعماتوں سے دور کر دیتا۔ اس معنی میں دین کے بارے میں بات کرنا چاہنے والا آدمی عالم دین ہونا ہے ۔ ہر ایک آدمی اس کے بارے میں فکروں سے بنیاد کرکے سحی راسطہ سے نہيں جا سکتا ہے ۔ دنیا میں کسی بہی دین لوگوں کو ظلم ، تکلیف دینے کے لۓ پیدا نہیں ہوا۔ ان دینوں میں سے سب سے بہترین دین میری، آپکی اور یہاں پر موجود ہونے والے لوگوں کی دین ہے ۔ یہاں پر 80 لاکھ اور دنیا میں ایک ارب مسلیم اس دین کو مانتے ہیں ۔

جناب صدر، میں دنیا کے بہت جگہوں میں ہوا ہوں ۔ لیکن آپ جیسے خوب تقریر کرنے والے صدر کے پاس بات کرنی میرے لۓ مشکل ہے ۔

جناب صدر، اپنی پقریر کے آخر میں میری ایک آرزو ہے کے آذرجایجانی شہری،جنہوں نے اپنے مکانوں سے محروم ہوکر پناہگیر ہو گۓ ائندہ اس عید کو اپنی زمین، مکانوں میں گذاریں ۔ اللہ ان کو بہی یہی روز نصیب کرے۔

جناب صدر، میں لوگوں کو آئندہ ہزار سال میں کامیابی، امن،خوشحالی ، سکون میں رہنے کی خواہش ظاہر کر رہا ہوں ۔ ہمیں قبول کرنے کے لۓ آپ کو ایک بار اور شکرگذار ہوں، آذربایجانی عوام کو اسکے لايق ہوۓ خوشی کے دیں، خوشحالی اور امن کی خواہش ظاہر کر رہا ہوں ۔ بہت شکریہ۔

حیدر علییف: محترم سفیر، میں آپ کو شکرگذار ہوں ۔ آپ نے اس جشن کی فلسفہ گہری طور پر سمجہایا ہے ۔ اسلام مذھب کی قدریوں کے بار ے میں اہم باتیں کی ہے ۔ میں ان ساری باتوں سے بالکل راضی ہوں ۔ امید ہے کہ ہم سب راضی ہے ۔ آذربایجانی عوام کے لۓ آپ کی تمنایں کے لۓ بہی آپ کو شکریہ۔

عہد غذائ ( ایران اسلامی جمہوریہ کا سفیر): جناب صدر، میں بہی آذربایجانی عوام کی عید الفطر کے متعلق ہوکر مباراک بادی دے رہا ہوں۔ ہمیں قبول کرنے کے لۓ آپ کو شکریہ۔ سفیر کولیگوں کو بہی اس ملاقات میں دگہائ ہوئ دلچسپی کے لۓ اپنی راضی مندی کا اظہار کر رہا ہوں ۔ آج ہم مسلیم ممالکوں کے سفیروں کو قبول کرنے کو ہم تعاون اور خیال رکہنے کے جیسے سمجہتے ہیں ۔ دنیا آذربایجان کو ایک مسلیم ملک مانتا ہے اور اسے ساتھ دیتا ہے ۔ اسلامی کینفرینس کے تنظیم کے فیصلوں سے ثابت ہوا ہے کہ اس تنظیم کے ممبر آذربایجان کو تائید کرتے ہیں ۔ قطر میں منظم کیا گیا آخری جلسہ کے پاس کۓ گۓ فیصلوں میں سے تین آذربایجان کے بارے میں تہے ۔ اں فیصلوں سے پہلے میں پہاڑی گراباغ کے متعلق آذربایجان کے مورچہ کو ساتھ دیا گیا تہا اور دورسرے فیصلہ آرمینیا کی طرف سے قبصہ کۓ آذربایجانی زمین کو آزاد کرنا اور تیسرے فیسلے پہاڑی گراباغ میں اور دوسرے قبضہ کۓ ہوۓ علاقوں میں تاریخی اور تہذیبی یادگاروں کی حفاظت کرنے کے بارے میں تہا ۔ کسی بہی حال میں آذربایجان کی اسلامی ‏عالم میں ایک آزاد ملک جیسا شامل ہونا بڑی اہم کی بات ہے ۔

کل عید کے متعلق آپ کے مسلیم لوگوں کو، آذربایجانی عوام کو بڑی اور گہری اپیل سنائ گئ تہی ۔ اس اپیل میں حاص باتیں یہ ہہ کہ آذربایجانی عوام میں وطن دوستی، وطن کے لۓ وفاداری کے احساس بڑھ جاۓ، اسلامی عاتیقاد بڑھ جاۓ، دینی قدروں کی حفاظت کی جاۓ اور آزادی سدا رہے ۔ یہ سب اسلامی مذھب کے ساتھ صحیح رہتے ہیں ۔ اسلام ان قدریوں کو اور ایسے علم کو بنیاد کرتا ہے ۔ آپ نے بہی اپنی اپیل میں اس کے بارے میں خاص بات کی اور آذربایجانی قوم سے یہی مانگے ۔

ترکی کی سفیر نے یہاں اسلامی قدروں کے بارے میں بڑی اور معنی والی بات کی ۔

جناب صدر، ہمیں قبول کرنے کے لۓ میں پہیر آپ کو شکرگذار ہوں ۔ آپ کو اچہی سحت، آذربایجانی عوام کو خوشحالی، امن اور خوشی، قبضہ کی گئ زمینوں کی آزادی، پناہ گیروں کی اپنی زمینوں کو واپسی اور اس جشن کو آئندہ اپنے مکانوں میں گذارنے کی خواہش اظہار کر رہا ہوں ۔

حیدر علییف: محترم سفیر، اپ کی خوش کامنایں، دوستی کی تعلقات اور خوش باتوں کے لۓ میں آپ کو شکرگذار ہوں ۔ اور چند وقت پہلے اسلامیگینفیرینس کی تنظیم کے تہران میں اور قطر میں ہونے والا آخری کینفیرینس میں آذربایجان کو تایئد ملنے کے بارے میں آپ کی باتیں صحیح ہیں اور ہمارے لۓ احلاقی حمایت ہے۔

میں آپ کو یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آرمینیا کی آذنبایجان کے جلاف حملہ میری انکہوں کے سامنے ہے ۔ کیوں کہ آرمینیا نے آذنبایجان خلاف مسلح حملہ کیا ہے ، ہماے جمہوریہ کے 20 فی صاد زمین کا قبصہ ہوا ۔ ہمارے دس لاکھ سے زیادہ شہری اپنے مکانوں سے، زمین سے محروم ہوکر پناہگیر ہو گۓ۔ لکین ہم چند بین الاقوامی تنظیموں میں، یوروپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم میں ایسے فیسلوں کو پاس ہونے میں نا کامیاب ہوتے ہیں ۔ ساچ یہ ہے کہ انجمن اقوام متحدہ کے سلاماتی کنسیل نے 1993-1992 کو آذربایجان کی زمین کو قبضہ کۓ ہوۓ آرمینیا سے بنا کسی شرط سے ان زمینوں سے نکالنے کے بارے میں چار ریزولوشن پاس کیا ہے ۔ لیکن آفسوس کی بات ہہ کہ یہ ریزولوشن ابہی تک پورے نہیں کۓ گۓ ۔ آرمینیا ان کو نہیں مانتا اور انجمن اقوام متحدہ بہی ان ریزولوشن کو پورے کرنے میں نا قابل ہے ۔

اسلامی کینفیرینس کی تنظیم، جس میں سارے مسلیم ممالک شامل ہے، میرے حصّہ لیتے ہوۓ سارے جلسوں میں مراکش، ایران، قطر میں بہی ہمیں ساتھ دیتا ہے ۔ اس کا اس مسعلہ میں مورچہ ایک ہی رہا اور آرمینیا حملہ وار ملک بتایا گيا اور آذربایجانی زمین کو آزاد کرنے کے بارے میں فیصلہ پاس کۓ گۓ تہے ۔

میں مسلیم ممالکوں کی وحدت کو ثابت کرنے والے ایک اہم بات کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں ۔ انجمن اقوام متحدہ کے آخری جلسہ میں انجمن اقوام متحدہ اور یوروپ میں حفاظت اور تعاون کی تنظیم کے ساتھ ریزولوشن میں پہاڑی گراباغ کے آذربایجان کا ہونے کے بارے میں ایک لفظ بہی نہیں تہا ۔

ہم اس بات سے بہت پریشان ہوۓ ۔ اس لۓ ہمارے انجمن اقوام متحدہ اور امریکہ میں سفیر اس کام سے بہت مصروف رہے ۔ انہوں نے مجہے بتایا تہا کہ یوروپ میں حفاظت اور تعاوں کی تنظیم کے مینسک گروپ کے ہم صدروں نے اس لفظ کو استعمال کرنے نہیں چاہا کیوں کے اس دوراں آرمینیا اور آذربایحان کے صدروں کے درمیان اس معملہ کے متعلق سیدہی ملاقاتیں چلتی تہی ۔ میں نے اس کے خلاف احتجاج کا اظہار کیا ۔ مینسک گروپ کے ھم صدر یہاں پر مجھ سے ملنے آۓ تہے اور میں نے ان کو سخت طور پر اپنے احتجاج کا اظہار کیا تہا۔ انہوں نے اہنے مورچے کو بدل لیا اور اس دستہ ویز میں پہاڑی گراباغ کے آذربایجان کے ہونے کے بارے میں فکر ایسا ہی رہا جیسے ہی شروع میں تہا ۔ انہوں نے اس دستہ ویز کے پاس ہونے کے لۓ ووٹ کۓ۔ لیکن ان تبدیلی کے قبول ہونا مسلیم ممالکوں کی ساتھ دینے سے ممکن ہوا ۔ میں یہی بہی کہنا والا ہوں کہ چند اسلامی ممالکوں نے پچہلے سالوں سے مقابلے میں ،معلوم نہیں کیوں،آذربایجاں کو ساتھ دینے سے انکار کۓ تہے ۔ لیکن پہلے انہوں نے ہمارے ساتھ دۓ تہے ۔ ظاہر ہے ہم اس بات کو دیکہیں گے اور اس کی سبب معلوم کرینگے ۔

پہیر کھ رہا ہوں مسلیم ممالکوں کی اکثاریات نے ہمیں تا‏ئید دیا تہا اور اس دستہ ویز میں اہم فکروں کے بحال ہونے میں مدد دی ۔

ان سب کو یاد کر کے میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مسلیم عوام، ممالک اکثار حالوں میں وحدت، یکانگی دکہاتے ہیں اور ہہ ہر ایک اسلامی ممالک کو کامیابی پانے میں مدد دیتا ہے ۔

میری آرزو یہ ہے کہ یہی وحدت،یکانگی سدا رہے۔ یہ اسلامی ریاستوں ، عواموں کی مستقبل میں ترقّی کے اہم شرطوں میں سے ہے ۔

میں اس فرصات کو لیکر آپ سب کو نیا سال کے متعلق مبارک بادی دیتا ہوں ۔ 31 دسمبر کو دنیا کے آذربیجانیوں کی یک جہتی کا روز ہے ۔ یہ ہمارے لۓ بہت عزیز روز ہے اور آپ ہمارے دوست ہیں ۔ شائد آپ لوگ اس روز کو بہی بہول نہ جائنگے ۔ ہم سے ہر ایک، یعنی ہریک مسلیم ریاست 21 صدی میں، تیسرے ہزار سال میں ایک آزاد ریاست، عوام جیسے داخل ہوتا ہے ۔ میری تمنا ہے کہ ہماری آزادی سدا رہے ۔

میں آپ سب کو اور آپ کے شخص میں آپ کے شہریوں کو ،ریاساتوں کو نیا سال کی تمنایں دلاتا ہوں۔ نیا سال میں آپ سب کو اچہی سحت، خوشی اور آپ کے عواموں اور ممالکوں کو امن، سکون اور خوشحالی کی تمنّایں دلاتا ہوں ۔ شکریہ ۔

آذربایجان اخبار سے، 29 دسبر 2000ء مضمون سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔