امریکہ کے صدر جناب ولیام کلینٹون - 8 فروری 1999 ء


محترم جناب صدر،

میں آرمینیا اور آذربایجان کے درمیان جہگڑے کے حل میں کوئ ترقی نہ ہونے سے اپنی پریشانی آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ آذربایجان کی علاقائ تمم تری ابہی بہی توڑی ہوئ ہے، آذربایجان کے زمیں کے 20 فی صد ابہی بہی آرمینیا کے مسلّح فوج کے قبضہ میں ہے،پانچ سال ہو گۓ ہیں کہ اپنے وطن کے زمین سے بہاگاۓ گۓ دس لاکھ سے زیادہ میرے ہم وطن بڑی مشکلات میں زندگی گذرتے ہیں۔ آرمینیا کے مسلّح فوج کو قبضہ کۓ گۓ علاقوں سے بلا کسی شرط نکالنے کے بارے میں انجمان اقوام متحدہ کے سلامتی کنسل کے 822،853،874

و 884 نمبر والے ریزولشن کو عمل نہیں کیا جاتا ہے۔

 معلوم ہے کہ اس جہگڑے کو امن پسند طریقے سے حل کرنے کے لۓ 1992ء کی مئ میں یوروپ میں سلامتی و تعاون کے تنظیم کے مینسک گروپ قائم کیا گیا تہا  اور صلح کنفیرینس کے مینڈٹ معلوم کیا گیا تہا۔ اس کنفیرینس میں آرمینیا اور آذربایجان جہگڑے کی طرفیں، پہاڑی گراباغ کے آرمینیائ اور آذربایجانی آبادی اس جہگڑے کی دلچسپ والی طرفیں تئ کی گئ تہیں۔ لیکن اس کے باواجود آرمینیا جمہوریہ کے 1988ء کو آذربایجان کے خلاف حملہ جاری کيا گیا تہا اور آذربایجان کے پہاڑی گراباغ خود مختاری صوبہ کے ساتھ اور 7 بڑے علاقوں پر قبضہ  کیا گیا تہا۔

 گذرے ہوۓ سات سال میں مینسک گروپ کی بنیاد میں اہم بات چیتیں چلانے کے لۓ بہت کوششیں کی گئ تہیں۔ لیکن آرمینیا جمہوریہ کی غلت پوزیشن سے متعلّق ہوکر بات چیتیں ہمیشہ ناکامیاب رہی اور کوئ مثبت نتیجے نہ پاۓ ہوۓ تہے۔

جہگڑے کو امن پسند طریقے سے حل کرنے کے لۓ ہماری ساری کوششیں اور  ان کوششوں کو مینسک گروپ کی طرف سے حمایت ملنے کے نتیجے میں 1994ء کی مئ میں متارکہ جنگی ہو گئ اور یہ ابہی تک چالو ہے ۔ آمن کے سمجہوتے پر دست خط  ہونے کے بعد اس علاقے میں امن کی حفاظت کرنے والے بین الاقوامی فوج لے آنے کے بارے میں 1994ء کے دسمبر یوروپ میں سلامتی و تعاون کے تنظیم کے بڈاپیشث سمیٹ میں قبول کیا گیا فیصلہ اور اس تنظیم کے 1996ء کے دسمبر میں لسبوں سمیٹ میں جہگڑے کو حل کرنے کے لۓ بین الاقوامی قانونی بنیاد معلوم کی گئ تہی اور یہ آرمینیا اور آذربایجان کے درمیان  جہگڑے کو انصاف سے حل کرنے میں ایک بڑی سیاسی کامیابی تہی۔ لیکن آرمینیا جمہوریہ کی طرف سے جاری کی گئ روکاوٹ اور یوروپ میں سلامتی و تعاون کے تنظیم کی اس سے راضی مندی پانے میں ناکامیاب ہونے کے نتیجے میں ان سمیٹوں کے فیصلے پورے نہ کۓ گۓ ہیں۔

 معلوم ہے کہ 1997ء کے 1 جون کو روس، آمریکہ اور فڑینس کے نمائندوں سے بنا ہوا  یوروپ میں سلامتی و تعاون کے تنظیم کے مینسک گروپ کے ہمصدروں نے لسبوں کے سمیٹ کے اصولوں کو بنیاد کرکے اس جہگڑے کے حل دو حصہ سے، یعنی مسلح جہگڑے کو روکنا اور پہاڑی گراباغ کی اسٹیٹس کو معلوم کرنے سے بنے ہوۓ سمجہوتے کی پروجیکٹ پیش کی تہی۔ آذربایجان کی طرف نے ہمصدروں کی اس تجویز کو قبول کی تہی، لیکن آرمینیائ طرف اس سے بالکل ناراض ہوا تہا اور اس کو  قبول نہیں کیا تہا ۔ آذربایجان جمہوریہ کی علاقائ تمم تری مانّے سے انکار کیا ہوا اور مینسک کونفرینس کو بغیر بلانے سے پہاڑی گراباغ کی اسٹیٹس معلوم کرنا ناممکن ہونے کو بہانہ کرکے آرمینیا نے ہمصدروں کی تجویز  انکار کی تہی۔ یہ بہی نوٹ کرنا ہے کہ 1997ء کے 20 جون کو آمریکہ کے ڈینور شہر میں روس، آمریکہ اور فڑینس کے صدر خاص بیان دیکر ان تجویزوں کو حمایت دی تہی۔

1997ء کے 19 ستنبر کو مینسک گروپ کے ہمصدروں نے اس جہگڑے کو مرحلہ سے حل کرنے کے لۓ ایک نئ تجویز، لسبن سمیٹ کے بعد دوسی تجویز  پیش کی تہی ۔ اس تجویز کے مطابق لاچین علاقے کے سواۓ پہاڑی گراباغ کے خود مختری صوبہ کے حدّوں کے باحر چہہ قبضہ کۓ گۓ علاقے آزاد ہونا، یوروپ میں سلامتی و تعاون کے تنظیم کے امن کی حفاظت کرنے میں عمل، پناہگیروں کو آزاد کۓ گۓ علاقوں میں لوٹوانا، جنگ کے نتیجے میں تباہ کۓ گۓ اور آرمینیا کی طرف سے تباہ کۓ گۓ کومیونیکیشن کو بحال کرنا تہا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں جنگ کے نتیجے دور کرنے کے بعد آذربایجان جمہوریہ کے ایک حصہ ہوا پہاڑی گراباغ کی اسٹیٹس معلوم کرنا اور اس کی حفاظت کرنے کے لۓ عمل کرنا تہا۔

 1997ء کے 10 آکتوبر میں اسٹڑیسبورگ میں آذربایجان اور آرمینیا کے دو صدروں کے قسم میں 1997ء کے 19 ستنبر کے تجویزوں کی بنیاد میں باتچیت جاری کرنے کے لۓ اپنی راضی مندی دۓ تہے۔ اور اس سے امید ہو گئ تہی کہ باتچیت کامیابی سے جاری کی جا سکتی تہی ۔ لیکن اس کے بعد آرمینیا اور آذربایجان کے صدر لیوون ٹیر پیٹروسیان کو استفا دینا پڑا اور آرمینیا کی نئ رہنمائ کی اپنی پوزیشن سخت کرنے سے اس عادل بنیاد میں باتچیت جاری کرنے کی امکانات پہیل ہو گئ۔

 مینسک گروپ کے ہمصدروں نے اس باتچیت کو جاری کرنے کی ارادے سے 1997ء کے 9 نومبر کو آذربایجان کی طرف کو بہت مایوس کرنے والی اور باتچیت کو جاری کرنے کو ناممکین کرنے والی اپنی تیسری تجویز پیش کی تہی ۔ یہ تجویز کے مطابق دنیا میں ابہی تک موجود نہ ہونے والا مشترکہ ریاست کے فکر پر بنیاد تہی اور یوروپ میں سلامتی و تعاون کے تنظیم کے دو سمیٹوں میں تصدیق کۓ گۓ فیصلوں سے اور اصولوں سے بنی ہوئ پہلی پوزیشن سے ہٹانا تہا – ہہ تجویزیں در اصل میں پہاڑی گراباغ کو ایک جمہوریہ کے قسم میں ریاست کی طرح الاحدہ کر رہی تہیں اور اس کو نقلی مشترکہ ریاست کی بنیاد میں آذربایجان کے ساتھ برابر ایک ہی اسٹیٹس دے رہی تہیں ۔ اور اس مشترکہ ریاست کو آذربایجان کے بین الاقوامی عالم میں قبول کۓ گۓ سرحدوں کی بنیاد میں بنانے سے  در اصل میں آذربایجان کی علاقائ تمم تری کے لۓ کوئ ضمانت نہ بنتا تہا، الٹا اس کو توڑ رہا تہا۔

 میرے حیال میں ہمصدروں کے بنا سوچ کر سمخہکر کۓ ہوۓ عمل، بے شک حل کے پڑوسس میں بہت نقصان پہونچایا اور اس کو اور پیچہے ہٹایا تہا ۔ اور اس نے  ہم پر گہری پریشانی پیدا کی تہی، خاص طور پر اس لے کہ روس فیڈیریشن آرمینیا جمہوریہ کو اسلحہ دلوانا جاری کرتا ہے۔ آرمینیا کو غیر قانونی راستہ سے ایک ارب ڈلر کے دام میں روس کے اسلحہ دلوانے کے بعد اسے میگ-29 جیٹ فایٹر اور اس-300 روکیٹ بہی بہیجنا اس کی ثبوت ہے۔

میرے خیال میں ہمصدر اگر کوشش نہ کریں تو آمریکہ، روس اور فرینس کی رہنمائ کی طرف سے سرگرم عمل نہ کۓ تو آذربایجان-آرمینیا جہگڑے کو انصاف سے حل کرنا نا ممکین ہے ۔ لسبون سمیٹ کے تین اصولوں کے حق مین دنیا کے 53 ریاستوں کی طرف سے ووٹ دینے کی خاص اہمیّت ہے۔

 ان سب کے پیش نظر، محترم جناب صدر، میں آپ کے یوروپ میں سلامتی و تعاون کے تنظیم کے ہمصدر ہونے کی وجہ سے اپیل کر رہا ہوں اور بڑی استقلال سے آپ سے خواہش کر رہا ہوں کہ جاتے جاتے ختم نہ ہونے والے، یوروپ میں امن اور مضبوطی کے خلاف ایک خطرہ کا ذریعہ ہونے والے اس جہگڑے کو لسبون  سمیٹ کے اصولوں کو پورے کرکے جلدی سے اس کو حل کرنے کے لۓ آپ کی اپنی سرگرمی اور وزارت خارجہ کی سرگرمی زیادتر بڑہا دیں۔

خلوص دل سے، حیدر علییف

 آذربایجان جمہوریہ کا صدر

باکو شہر، 6 فروری 1999ء